وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں برطانوی سفارت اہلکاروں کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر جہلم سے گزشتہ دنوں اغوا ہونے والے پانچ سالہ پاکستانی نژاد برطانوی بچہ ساحل سعید بازیاب ہو گیا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن نے منگل کی صبح ایک مختصر بیان میں ساحل نقاش کی بازیابی کی تصدیق کی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس خبر سے ساحل اور اس کے خاندان کی کوفت اور پریشانی ختم ہوئی ہوگی۔
اس موقع پر برطانوی سفارت کار نے برطانوی اور پاکستانی حکام کے درمیان تعاون کی تعریف کی۔ انہوں نے جہلم پولیس کا بھی بچے کی بحفاظت بازیابی میں کامیابی پر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ بازیابی کیسے ممکن ہوئی۔
پولیس اہلکاروں نے پاکستانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اغوا کار ساحل کو منگل کے روز جہلم سے بیس میل دور واقع قصبے ڈنگہ کے ایک سکول کے قریب چھوڑ گئے۔
ساحل کو چار مارچ کو نامعلوم افراد نے والد کے ساتھ گھر سے واپس برطانیہ کے لیے روانگی کے وقت اغوا کر لیا تھا۔ ان کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ اغوا کارروں نے پہلے گھر کو لوٹا اور جاتے ہوئے بچے کو بھی ساتھ لے گئے۔
بعض اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے بچے کی رہائی کے بدلے بڑی تاوان کی رقم کا تقاضا بھی کیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ رقم ادا کی گئی یا نہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساحل سعید کی بازیابی کی تصدیق کی اور کہا کہ بچے کے اغوا سے پاکستان کو بری پبلسٹی مل رہی تھی اور ’ہم اذیت کا شکار تھے۔‘ انھوں نے بچے کے اہلِ خانہ کو مبارک باد دی اور کہا کہ ’ہمیں اصل لوگوں کا (جو بچے کے اغوا میں ملوث ہو سکتے ہیں) پتہ چل گیا ہے۔‘
ساحل سعید کے خاندان کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ ساحل کی والدہ عقیلہ نقاش نے ٹیلی فون پر اپنے بیٹے سے بات کی ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ ساحل کی بازیابی سے پورے کا پورا خاندان بے انتہا خوش ہے۔
ساحل کو اغوا کرنے والوں نے بچے کی واپسی کے لیے بظاہر ایک لاکھ پاؤنڈ کا زرِ تاوان طلب کیا تھا لیکن ساحل کے خاندان نے کہا تھا کہ وہ اتنی زیادہ رقم کا انتظام ہرگز نہیں کر سکتے۔
اولڈھم سے تعلق رکھنے والے ساحل کے بارے میں پنجاب کے وزیر رانا ثنا اللہ نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو بتایا تھا کہ ساحل کی بازیابی کے لیے تاوان کی رقم ادا کی گئی ہے۔ منگل کو جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ساحل کے والد نے بچے کی رہائی کے لیے تاوان ادا کیا ہے تو وزیر کا کہنا تھا کہ رقم ’برطانیہ میں نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک میں ادا کی گئی۔‘ رانا ثنا اللہ نے یہ بھی کہا تھا کہ بچے کے اغوا میں ایک بین الاقوامی گروہ ملوث تھا۔
ریجنل پولیس افسر جہلم اسلم ترین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بچہ اچھی حالت میں ہے۔ ’اسے ہم نے کھلونے مہیا کیے ہیں۔ وہ کھیل کود رہا ہے۔’ تاہم انہوں نے کسی رشتہ دار کے ملوث ہونے کی افواہوں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ باپ اور نہ کسی اور رشتہ دار کے اس میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہے۔ ’ابھی ہمیں نہیں معلوم کون ملوث تھا اس اغوا میں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نامعلوم شخص سے صبح فون موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ بچہ فلاں مقام پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا اغوا کاروں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔تاہم پولیس اہلکار نے اغوا کاروں تک پہنچنے کی تحقیقات پر روشنی ڈالنے سےگریز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بازیابی کے بعد اب تفتیش کا تیسرا مرحلہ جاری ہے اور جب مکمل ہوگا تو تب میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment